ہماری آنکھ میں جس غم کی لَو رکھی ہوئی ہے
اسی کے دَم سے اندھیروں میں روشنی ہوئی ہے
یہ حشر کس نے اٹھایا ہے میری بستی پر
گلی گلی مِری بستی کی ماتمی ہوئی ہے
مِرے شعور پہ صدیوں کا زنگ تھا شاید
بھٹک نہ جائیں دھندلکے میں قافلے والے
فضا غبار کے طوفاں سے سرمئ ہوئی ہے
مسل دیے ہیں یہ کس جبر نے خیال کے پھول
ہر ایک سوچ پہ کیوں برف سی جمی ہوئی ہے
جمود میں تھے عناصر زمین پر پہلے
مگر ہم آئے جہاں میں تو زندگی ہوئی ہے
وہ کس بنا پہ محبت کی بات کرتا ہے
کہ انگ انگ میں جس کے انا بھری ہوئی ہے
میں زندگی کو گلابوں کی سیج کہہ رہا ہوں
میں بدحواس نہیں ہوں نہ میں نے پی ہوئی ہے
عبدالرحمان واصف
No comments:
Post a Comment