Friday 16 September 2016

جو آگ کا دریا مرے رستے میں کھڑا ہے

جو آگ کا دریا مِرے رستے میں کھڑا ہے
وہ میرے تخیل کی حدوں سے بھی بڑا ہے
سویا ہے جو سر وقت کی دہلیز پہ رکھ کر
وہ نیند کے طوفاں سے بہت دیر لڑا ہے
وہ جو مِری نس نس میں دکھن گھول رہا ہے
وہ ہجر کا خنجر مِرے سینے میں گڑا ہے
قدموں پہ جھکاتا تھا زمانے کو جو اک شخص
اب خاک بسر وقت کے قدموں میں پڑا ہے
آنکھوں میں نہیں دل میں اتارو سبھی آنسو
سن لو، کہ یہاں ضبط کا معیار کڑا ہے

عبدالرحمان واصف

No comments:

Post a Comment