ہمیں کر کے سمندر کے حوالے
وہ کیوں چپ چاپ اپنا راستا لے
پرندے اب کہاں مسکن بنائیں؟
کہ انسانوں نے جنگل کاٹ ڈالے
کسی مجذوب نے کیا سچ کہا تھا
سفر شاید نہ جاری رکھ سکوں میں
لہو آلود ہیں پاؤں کے چھالے
ہمارے حرف ریزے چاندنی تھے
جنہوں نے سب اندھیرے پھونک ڈالے
اے میرے خواب! تجھ کو ٹوٹنا ہے
مِری آنکھوں میں اک پَل جھِلملا لے
عبدالرحمان واصف
No comments:
Post a Comment