دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا
میں اپنے ہاتھ کا تِتلی پہ سایہ کرتا تھا
اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں
جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا
یہ چاند ضعف سے جسکی زباں نہیں کھلتی
میں اپنی ٹوٹتی آواز گانٹھنے کے لئے
کہیں سے لفظ کا پیوند لایا کرتا تھا
عجیب حسرتِ پرواز مجھ میں ہوتی تھی
میں کاپیوں میں پرندے بنایا کرتا تھا
تلاشِ رزق میں بھٹکے ہوئے پرندوں کو
میں جیب خرچ سے دانہ کھلایا کرتا تھا
ہمارے گھر کے قریب ایک جھیل ہوتی تھی
اور اس میں شام کو سورج نہایا کرتا تھا
یہ زندگی تو مجھے تیرے پاس لے آئی
یہ راستہ تو کہیں اور جایا کرتا تھا
عباس تابش
No comments:
Post a Comment