Thursday 15 September 2016

شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں

شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں 
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
ہم تو بے نام ارادوں کے مسافر ٹھہرے 
کچھ پتا ہو تو بتائیں کہ کدھر جاتے ہیں 
گھر کی گِرتی ہوئی دیوار ہے ہم سے اچھی 
راستہ چلتے ہوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں
اک جدائی کا وہ لمحہ، کہ جو مرتا ہی نہیں 
لوگ کہتے تھے سبھی وقت گزر جاتے ہیں
پھر وہی تلخئ حالات مقدر ٹھہری
نشے کیسے بھی ہوں کچھ دن میں اتر جاتے ہیں

وسیم بریلوی 

No comments:

Post a Comment