Thursday 15 September 2016

اجل نے عہد میں تیرے ہی تقدیر سے یہ پیغام کیا

اجل نے عہد میں تیرے ہی تقدیر سے یہ پیغام کیا
ناز و کرشمہ دے کر اس کو مجھ کو کیوں بدنام کیا
چمن میں آتے سن کر تجھ کو بادِ سحر یہ گھبرائی
ساغر جب تک لاویں ہی لاویں توڑ سبو کو جام کیا
ناگن کا اس زلف کی مجھ سے رنگ نہ پوچھو، کیا حاصل
خواہ تھی کالی، خواہ وہ پیلی، بِس نے اپنا کام کیا
پوج مجھے اس دیرِ کہن میں کیا پوجے ہے پتھر کو
مجھ وحشی کو، سنا برہمن! بتوں نے اپنا رام کیا
تھا یہ جوانی فکر و تردد، بعد از پیری پایا چین
رات تو کاٹی دکھ سکھ ہی میں، صبح ہوئی آرام کیا
خاص کروں میں ہی نظارہ تُو تو دید کی لذت ہے
کور بھلیں یہ آنکھیں اس دن، جس دن جلوہ عام کیا
کون سا مجھ سے حسنِ تردد عمل میں آیا تیرے حضور
دل کو غارت کر کے میرے، جان کو کیوں انعام کیا
مہر و وفا و شرم و مروت سبھی کچھ اس میں سمجھے تھے
کیا کیا دل دیتے وقت اس کو ہم نے خیالِ خام کیا
لذت دی نہ اسیری نے صیاد کی بے پروائی سے
تڑپ تڑپ کر مفت دیا جی، ٹکڑے ٹکڑے دام کیا
شمع رخوں سے روشن ہو گھر ایسے اپنے کہاں نصیب
صبحِ ازل سے قسمت نے خاموش چراغِ شام کیا
فخر نہیں اے شیخ! مجھے کچھ دین میں تیرے آنے کا
راہب نے جب منہ نہ لگایا تب میں قبولِ اسلام کیا
ادب دیا ہے ہاتھ سے اپنے کبھو بھلا مے خانے کا
کیسے ہی ہم مست چلے پر سجدہ ہر اک گام کیا
میں یہ سماجت دیا ہے دل کو، جور و جفا کا شکوہ کیا
ان نے کب لینے پر اس کے، قاضی کا اعلام کیا
یار کہے ہے سوداؔ کے ملنے سے مجھ کو کیا حاصل
شعر جو ان نے خوب کہے، آفاق میں اپنا نام کیا

مرزا رفیع سودا

No comments:

Post a Comment