گِلہ لکھوں میں اگر تیری بیوفائی کا
لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا
زباں ہے شکر میں قاصر شکستہ بالی کے
کہ جن نے دل سے مٹایا خلش رہائی کا
مِرے سجود کی دَیر و حرم سے گزری قدر
دماغ جھڑ گیا آخر تِرا نہ اے نمرود
چلا نہ پشے سے کچھ بس تِری خدائی کا
کبھو نہ پہنچ سکے دل سے تا زباں اک حرف
اگر بیاں کروں طالع کی نارسائی کا
دکھاؤں گا تجھے زاہد اس آفتِ دِیں کو
خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا
طلب نہ چرخ سے کر نانِ راحت اے سوداؔ
پھِرے ہے آپ یہ کاسہ لیے گدائی کا
مرزا رفیع سودا
No comments:
Post a Comment