Thursday 15 September 2016

کس کے ہیں زیر زمیں دیدۂ نم ناک ہنوز

کس کے ہیں زیرِ زمیں دیدۂ نمناک ہنوز
جا بہ جا سوت ہیں پانی کے تہِ خاک ہنوز
ایک دن گھیر میں دامن کا تِرے دیکھا تھا
گِرد پھِرتے ہیں گریباں کے مِرے چاک ہنوز 
جستجو کر کے تجھ آفت کو بہم پہنچایا
باز آتے نہیں گردش سے یہ افلاک ہنوز
باغ میں جب سے گیا تھا وہ خمار آلودہ
گل ہیں خمیازے میں، انگڑائی میں ہیں تاک ہنوز
زخم دل پر ہے مِرے، تیغِ جنوں کا ناصح
تُو گریبان کا ناداں! سیئے ہے چاک ہنوز
کیونکہ سوداؔ مَیں کروں وصف بنا گوش اس کا
کی نہیں آبِ گہر سے یہ زباں پاک ہنوز

مرزا رفیع سودا

No comments:

Post a Comment