Thursday 15 September 2016

ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے

ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
یہ نین وہ ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے
اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک
لختِ جگر کی نعش کو آگے دھرے ہوئے 
پلکیں تِری کہاں نہ صف آرا ہوئیں کہ واں
افواجِ قاہرہ کے نہ برہم پرے ہوئے
انکھیوں کو تیری کیونکہ میں باندھوں کہ یہ غزال
جاتے ہیں میرے دل کی زراعت چرے ہوئے
بوندی کے جمدھروں سے یہ بھِڑتے ہیں یک دِگر
لڑ کے مجھ آنسواں کے نپٹ منگرے ہوئے
انصاف کس کو سونپیے اپنا،۔۔۔ بجز خدا
منصف جو بولتے ہیں سو تجھ سے ڈرے ہوئے
نزدیک اپنے رہنے سے مت کر تُو ہمیں منع
ہیں لاکھ کوس جب تِرے دل سے پرے ہوئے
مجلس میں چھوکروں کی جو چھیڑے سے شیخ جی
آویں تو پھر خدا نے کہا مسخرے ہوئے
سوداؔ نکل نہ گھر سے کہ اب تجھ کو ڈھونڈتے
لڑکے پھِرے ہیں پتھروں سے جھولی بھرے ہوئے

مرزا رفیع سودا

No comments:

Post a Comment