ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
یہ نین وہ ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے
اے دل یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک
لختِ جگر کی نعش کو آگے دھرے ہوئے
پلکیں تِری کہاں نہ صف آرا ہوئیں کہ واں
انکھیوں کو تیری کیونکہ میں باندھوں کہ یہ غزال
جاتے ہیں میرے دل کی زراعت چرے ہوئے
بوندی کے جمدھروں سے یہ بھِڑتے ہیں یک دِگر
لڑ کے مجھ آنسواں کے نپٹ منگرے ہوئے
انصاف کس کو سونپیے اپنا،۔۔۔ بجز خدا
منصف جو بولتے ہیں سو تجھ سے ڈرے ہوئے
نزدیک اپنے رہنے سے مت کر تُو ہمیں منع
ہیں لاکھ کوس جب تِرے دل سے پرے ہوئے
مجلس میں چھوکروں کی جو چھیڑے سے شیخ جی
آویں تو پھر خدا نے کہا مسخرے ہوئے
سوداؔ نکل نہ گھر سے کہ اب تجھ کو ڈھونڈتے
لڑکے پھِرے ہیں پتھروں سے جھولی بھرے ہوئے
مرزا رفیع سودا
No comments:
Post a Comment