Thursday 15 September 2016

بلاتے رہ گئے پیڑوں کے سائے

بلاتے رہ گئے پیڑوں کے سائے
پرندے باغ میں واپس نہ آئے
نہیں کھلتی کئی دن سے وہ کھڑکی
تمنا دل ہی دل میں سٹپٹائے
ندی میں ڈوبنے لگتا ہے سورج
گزر جاتے ہیں سائے سر جھکائے
بہت ہی سرد تھا موسم کا جھونکا
تمہارے ہونٹ شب بھر یاد آئے
کنارے جھیل کے خوابیدہ کشتی
کہیں پانی میں سائے جھلملائے
بندھا ہے کچے دھاگے سے ہی سب کچھ
نہ جانے کب یہ دھاگا ٹوٹ جائے
کئی راتوں کے ہم جاگے ہیں عادلؔ
گھڑی بھر تو خدارا نیند آئے

عادل منصوری

No comments:

Post a Comment