بلاتے رہ گئے پیڑوں کے سائے
پرندے باغ میں واپس نہ آئے
نہیں کھلتی کئی دن سے وہ کھڑکی
تمنا دل ہی دل میں سٹپٹائے
ندی میں ڈوبنے لگتا ہے سورج
بہت ہی سرد تھا موسم کا جھونکا
تمہارے ہونٹ شب بھر یاد آئے
کنارے جھیل کے خوابیدہ کشتی
کہیں پانی میں سائے جھلملائے
بندھا ہے کچے دھاگے سے ہی سب کچھ
نہ جانے کب یہ دھاگا ٹوٹ جائے
کئی راتوں کے ہم جاگے ہیں عادلؔ
گھڑی بھر تو خدارا نیند آئے
عادل منصوری
No comments:
Post a Comment