Thursday 15 September 2016

بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا

بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشا تھا
میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا
گھونگھٹ میں مِرے خواب کی تعبیر چھپی تھی
مہندی سے ہتھیلی میں مِرا نام لکھا تھا 
لب تھے کہ کسی پیالی کے ہونٹوں پہ جھکے تھے
اور ہاتھ کہیں گردنِ مینا میں پڑا تھا
حمام کے آئینے میں شب ڈوب رہی تھی
سگریٹ سے نئے دن کا دھواں پھیل رہا تھا
دریا کے کنارے پہ مِری لاش پڑی تھی
اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا
معلوم نہیں پھر وہ کہاں چھپ گیا عادلؔ
سایا سا کوئی لمس کی سرحد پہ ملا تھا

عادل منصوری

No comments:

Post a Comment