بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشا تھا
میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا
گھونگھٹ میں مِرے خواب کی تعبیر چھپی تھی
مہندی سے ہتھیلی میں مِرا نام لکھا تھا
لب تھے کہ کسی پیالی کے ہونٹوں پہ جھکے تھے
حمام کے آئینے میں شب ڈوب رہی تھی
سگریٹ سے نئے دن کا دھواں پھیل رہا تھا
دریا کے کنارے پہ مِری لاش پڑی تھی
اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا
معلوم نہیں پھر وہ کہاں چھپ گیا عادلؔ
سایا سا کوئی لمس کی سرحد پہ ملا تھا
عادل منصوری
No comments:
Post a Comment