عداوتوں کا حال قربتوں میں سوچیں گے
مسافتوں کی تھکن منزلوں میں سوچیں گے
خزاں کے ہاتھ مجھے اس نے پھول بھیجا ہے
وہ دوستوں میں ہے کہ دشمنوں میں سوچیں گے
تیرے بغیر کس طرح وقت گزرے گا
منافقت کے یہ لمحے گزر ہی جانے دو
رفاقتوں کے زخم ہجرتوں میں سوچیں گے
کیوں ہو گئے خشک اشک سب کی آنکھوں میں
یہ ایک سوال کبھی بارشوں میں سوچیں گے
رفاقتوں کے یہ موسم کیسے گزر گئے
اب اگلے سال انہی موسوں میں سوچیں گے
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment