Wednesday 14 September 2016

مرحلہ کوئی ہم نے درد کا نہیں ہارا

مرحلہ کوئی ہم نے درد کا نہیں ہارا
زخم زخم ہیں لیکن حوصلہ نہیں ہارا
دل کے ہار جانے پر ہو ملال کیوں ہم کو
تیرے در پہ ہارے ہیں، جا بجا نہیں ہارا
ایک ایک ٹکڑی پر عکس پہلے جیسا ہے
کِرچیوں میں بٹ کر بھی آئینہ نہیں ہارا
اپنے خوں سے لکھی ہے داستاں اجالوں کی
ریزہ ریزہ جسموں نے معرکہ نہیں ہارا
اس نے میرے ہونٹوں سے لفظ نوچ پھینکے ہیں
پر، لبوں کے ہلنے کا سلسلہ نہیں ہارا
اب بھی اتنی دوری پر روشنی کا مسکن ہے
کائنات ہاری ہے،۔۔۔۔ فاصلہ نہیں ہارا
آندھیوں میں گھِر کر بھی حوصلہ ہے لوگوں کو
اب تلک ظہیرؔ ان کا ناخدا نہیں ہارا

ثناء اللہ ظہیر

No comments:

Post a Comment