مرحلہ کوئی ہم نے درد کا نہیں ہارا
زخم زخم ہیں لیکن حوصلہ نہیں ہارا
دل کے ہار جانے پر ہو ملال کیوں ہم کو
تیرے در پہ ہارے ہیں، جا بجا نہیں ہارا
ایک ایک ٹکڑی پر عکس پہلے جیسا ہے
اپنے خوں سے لکھی ہے داستاں اجالوں کی
ریزہ ریزہ جسموں نے معرکہ نہیں ہارا
اس نے میرے ہونٹوں سے لفظ نوچ پھینکے ہیں
پر، لبوں کے ہلنے کا سلسلہ نہیں ہارا
اب بھی اتنی دوری پر روشنی کا مسکن ہے
کائنات ہاری ہے،۔۔۔۔ فاصلہ نہیں ہارا
آندھیوں میں گھِر کر بھی حوصلہ ہے لوگوں کو
اب تلک ظہیرؔ ان کا ناخدا نہیں ہارا
ثناء اللہ ظہیر
No comments:
Post a Comment