تھلوں میں چشمۂ برفاب کی طرح ہوں میں
خود اپنے واسطے اک خواب کی طرح ہوں میں
نکل چکا ہوں میں تجھ سے مگر مِرے دریا
اب ایک ماہئ بے آب کی طرح ہوں میں
مِرے بغیر تشخص تِرا بھی ہے مشکوک
خوش آمدید بغیر امتیازِ نسل و زباں
مزاجِ خطۂ پنجاب کی طرح ہوں میں
کوئی بھی شکل ہو میں روشنی بکھیرتا ہوں
کبھی دِیے، کبھی محراب کی طرح ہوں میں
مجھے گرفت میں رکھ مجھ کو چاہنے والے
تُو جانتا ہے، کہ سیماب کی طرح ہوں میں
رقیب پڑھ نہ سکے گا تِری کتابِ حیات
کہ اس میں ایک حسِیں باب کی طرح ہوں میں
مجھے بھی یاد ہے بچپن کی رنجشوں کی طرح
وہ شخص جس کیلئے خواب کی طرح ہوں میں
ظہیرؔ وہ مِری اک لہر کو ترس رہے ہیں
جنہیں گِلہ تھا کہ سیلاب کی طرح ہوں میں
ثناء اللہ ظہیر
No comments:
Post a Comment