Wednesday 14 September 2016

تھلوں میں چشمۂ برفاب کی طرح ہوں میں

تھلوں میں چشمۂ برفاب کی طرح ہوں میں 
خود اپنے واسطے اک خواب کی طرح ہوں میں 
نکل چکا ہوں میں تجھ سے مگر مِرے دریا
اب ایک ماہئ بے آب کی طرح ہوں میں 
مِرے بغیر تشخص تِرا بھی ہے مشکوک
تُو لفظ ہے، تِرے اعراب کی طرح ہوں میں 
خوش آمدید بغیر امتیازِ نسل و زباں 
مزاجِ خطۂ پنجاب کی طرح ہوں میں 
کوئی بھی شکل ہو میں روشنی بکھیرتا ہوں 
کبھی دِیے، کبھی محراب کی طرح ہوں میں 
مجھے گرفت میں رکھ مجھ کو چاہنے والے
تُو جانتا ہے، کہ سیماب کی طرح ہوں میں 
رقیب پڑھ نہ سکے گا تِری کتابِ حیات
کہ اس میں ایک حسِیں باب کی طرح ہوں میں 
مجھے بھی یاد ہے بچپن کی رنجشوں کی طرح
وہ شخص جس کیلئے خواب کی طرح ہوں میں 
ظہیرؔ وہ مِری اک لہر کو ترس رہے ہیں 
جنہیں گِلہ تھا کہ سیلاب کی طرح ہوں میں 

ثناء اللہ ظہیر

No comments:

Post a Comment