یہ مزہ پائیدار تھوڑی ہے
وصل میں بھی قرار تھوڑی ہے
ہم قیامت کے انتظار میں ہیں
آپ کا انتظار تھوڑی ہے؟
اک گریباں بھی نہیں ہے چاک
سننے والوں میں ذوق ہی نہ رہا
ہم کو نالوں سے عار تھوڑی ہے
نفع نقصان سے ہمیں کیا جی
عشق ہے، کاروبار تھوڑی ہے
اصل وحشت بھی کھل کے آئے مگر
اس جنوں کو قرار تھوڑی ہے
دل بھی کمبخت رو رہا ہے شجاعؔ
آنکھ ہی اشک بار تھوڑی ہے
شجاع خاور
No comments:
Post a Comment