Tuesday 13 September 2016

یہ مزا پائیدار تھوڑی ہے

یہ مزہ پائیدار تھوڑی ہے
وصل میں بھی قرار تھوڑی ہے
ہم قیامت کے انتظار میں ہیں
آپ کا انتظار تھوڑی ہے؟
اک گریباں بھی نہیں ہے چاک
یہ خزاں ہے، بہار تھوڑی ہے
سننے والوں میں ذوق ہی نہ رہا
ہم کو نالوں سے عار تھوڑی ہے
نفع نقصان سے ہمیں کیا جی
عشق ہے، کاروبار تھوڑی ہے
اصل وحشت بھی کھل کے آئے مگر
اس جنوں کو قرار تھوڑی ہے
دل بھی کمبخت رو رہا ہے شجاعؔ
آنکھ ہی اشک بار تھوڑی ہے

شجاع خاور

No comments:

Post a Comment