Friday, 16 September 2016

اب کے خزاں نے ایسے اڑایا ادھر ادھر

اب کے خزاں نے ایسے اُڑایا اِدھر اُدھر
پتوں کی طرح ہم کو بکھیرا اِدھر اُدھر
اک دن ٹھہر گئی تھی کسی پر ہماری آنکھ
اُس دن کے بعد ہم نے نہ دیکھا اِدھر اُدھر
دِینارِ عشق جس طرح چاہے اچھال لو
لکھا ملے گا نام ہمارا، اِدھر، اُدھر
سر پیٹتی پھِرے گی ہر اک سُو شبِ فراق
روتی پھِرے گی صبحِ تمنا اِدھر اُدھر
پیروں بھی سفر کے نشاں جاگتے رہے
دل بھی تِری تلاش میں بھٹکا اِدھر اُدھر
اک مستقل عذاب کی صورت تھا بارِ عشق
پھر ہم نے بھی یہ بوجھ اُتارا اِدھر اُدھر
جس روز ہم اِدھر سے اُدھر ہو گئے کہیں
ڈھونڈے گی پھر ہمیں یہی دنیا اِدھر اُدھر
کچھ اور کھڑکیاں بھی کھُلی تھیں، مگر حسن
ہم نے قسم خدا کی نہ جھانکا اِدھر اُدھر

حسن عباس رضا 

No comments:

Post a Comment