Tuesday, 13 September 2016

چلتی دیکھی تھی آب میں ناؤ

چلتی دیکھی تھی آب میں ناؤ
میں نے ڈالی سراب میں ناؤ
کون اس کو کنارے پر لایا
ڈولی جب بھی حباب میں ناؤ
موج در موج ناچتی وحشت
ہے رواں کس حساب میں ناؤ 
ہو نہ ہو سامنا سفر کا ہے؟
میں نے دیکھی ہے خواب میں ناؤ
میں اسے کیسے بھول سکتا ہوں
جس کی آئی عذاب میں ناؤ
کس قدر بد نصیب ہو گا وہ
جس کی ڈوبی شراب میں ناؤ
اڑ گئے بادباں ہواؤں میں
غرق ہے پیچ و تاب میں ناؤ

سعادت سعید

No comments:

Post a Comment