چلتی دیکھی تھی آب میں ناؤ
میں نے ڈالی سراب میں ناؤ
کون اس کو کنارے پر لایا
ڈولی جب بھی حباب میں ناؤ
موج در موج ناچتی وحشت
ہو نہ ہو سامنا سفر کا ہے؟
میں نے دیکھی ہے خواب میں ناؤ
میں اسے کیسے بھول سکتا ہوں
جس کی آئی عذاب میں ناؤ
کس قدر بد نصیب ہو گا وہ
جس کی ڈوبی شراب میں ناؤ
اڑ گئے بادباں ہواؤں میں
غرق ہے پیچ و تاب میں ناؤ
سعادت سعید
No comments:
Post a Comment