اپنے لٹنے کے سبب تک پہنچے
سلسلے عالی نسب تک پہنچے
توڑ ڈالے گئے وہ طبقات کے بت
بت شکن، عظمتِ رب تک پہنچے
چند ہاتھوں میں ہے دولت سب کی
کارخانوں کے پِسے مزدورو
چیخ بھی بزمِ طرب تک پہنچے
خاک خاکی ہی اڑا سکتے ہیں
خلق بس رنج و تعب تک پہنچے
پہلے مستور کرو پردوں میں
پھر حقیقت کسی لب تک پہنچے
چھوڑ بھی دیجئے مقبوضہ زمیں
جانے کب بات غضب تک پہنچے
سعادت سعید
No comments:
Post a Comment