Friday 16 September 2016

اگرچہ آج مری چشم تر میں آوے ہے

اگرچہ آج مِری چشمِ تر میں آوے ہے
زہے نصیب کوئی اپنے گھر میں آوے ہے
اُتار دیوے ہے قالب میں سارے صیغوں کو
خیالِ یار ’اُدھر‘ سے ’اِدھر‘ میں آوے ہے
کبھی کبھی تو بجائے ہمارے، شام ڈھلے
اُداسیوں کا جنازہ ہی گھر میں آوے ہے
اُس ایک فتنۂ محشر کی یاد جب آوے
عجیب لطف مجھے ’دردِ سر‘ میں آوے ہے
مثالِ خوشبوئے مہتابِ رنگ و بُو خالدؔ
کبھی تو موجۂ برق و شرر میں آوے ہے

خالد کرار

No comments:

Post a Comment