اگرچہ آج مِری چشمِ تر میں آوے ہے
زہے نصیب کوئی اپنے گھر میں آوے ہے
اُتار دیوے ہے قالب میں سارے صیغوں کو
خیالِ یار ’اُدھر‘ سے ’اِدھر‘ میں آوے ہے
کبھی کبھی تو بجائے ہمارے، شام ڈھلے
اُس ایک فتنۂ محشر کی یاد جب آوے
عجیب لطف مجھے ’دردِ سر‘ میں آوے ہے
مثالِ خوشبوئے مہتابِ رنگ و بُو خالدؔ
کبھی تو موجۂ برق و شرر میں آوے ہے
خالد کرار
No comments:
Post a Comment