بلا کی پیاس تھی،۔ حدِ نظر میں پانی تھا
کہ آج خواب میں صحرا تھا گھر میں پانی تھا
پھر اُس کے بعد مِری رات، بے مثال ہوئی
اُدھر وہ شعلہ بدن تھا، اِدھر میں پانی تھا
نہ جانے خاک کے مژگاں پہ آبشار تھا کیا
تمام عُمر یہ عُقدہ نہ وا ہوا مجھ پر
کہ ہاتھ میں تھا یا چشم خِضرؑ میں پانی تھا
عجیب دشتِ تمنا سے تھا گزر خالدؔ
بدن میں ریگِ رواں تھی، سفر میں پانی تھا
خالد کرار
No comments:
Post a Comment