Friday 16 September 2016

یہ میز یہ کتاب یہ دیوار اور میں

یہ میز، یہ کتاب، یہ دیوار اور میں
کھڑکی میں زرد پھولوں کا انبار اور میں
ہر شام اس خیال سے ہوتا ہے جی اداس
پنچھی تو جا رہے ہیں افق پار اور میں 
اک عمر اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہے
اک دوسرے کے خوف سے دیوار اور میں
سرکار! ہر درخت سے بنتے نہیں ہیں تخت
قربان آپ پر مِرے اوزار اور میں
لے کر تو آ گیا ہوں مِرے پاس جو بھی تھا
اب سوچتا ہوں تیرا خریدار اور میں
خوشبو سی اک فضاؤں میں پھیلی ہوئی جسے
پہچانتے ہیں صرف سگِ یار اور میں
کھوۓ ہووں کو ڈھونڈنے نکلا تھا آفتاب
دنیا تو مل گئی سرِ بازار اور میں

ذوالفقار عادل

No comments:

Post a Comment