Friday, 16 September 2016

گر کسی چشم گہر بیں سے شناسا ہوتا

گر کسی چشمِ گہر بِیں سے شناسا ہوتا
میں وہ سِکہ تھا کہ ہر ملک میں چلتا ہوتا
شاخِ دل اب بھی لچکتی ہے اسی حسرت میں
کاش اِس پر بھی پرندہ کوئی بیٹھا ہوتا 
موجۂ بادِ خبر! گرم مزاجی اتنی
تُو جو صحراؤں میں ہوتا تو بگولہ ہوتا
قیس جیسا تو کوئی ہو نہیں پایا، لیکن
ایک امید کہ ہو جاؤں گا ہوتا ہوتا
اب تو اس شہر کے حالات سے بھی ڈرنے لگے
ہم، کہ صحرا ؤں میں دیکھ آئے ہیں کیا کیا ہوتا
تتلیو! آنکھ سے سب رونقِ نظارہ ہے
یہ نہ ہوتی تو کہاں رنگ کا چرچا ہوتا
ق
تم بجا کہتے ہو، آخر یہی ہونا ہوتا
پھر بھی حالات سے لڑ لیتے تو اچھا ہوتا
یہ مداوا تو نہیں ہے شبِ تنہائی کا
شمعِ امید جلا لیتے تو اچھا ہو تا
صرف اک ہجر کے وقفے پہ اداسی اتنی
تم کسی کے بھی نہ ہو سکتے تو کیسا ہوتا
سوچتا ہوں میں تِرے بعد کسی کا ہو کر
تُو بھی اس بھیڑ میں ہوتا تو اکیلا ہوتا

رحمان حفیظ 

No comments:

Post a Comment