Tuesday 13 September 2016

ماضی نے جو لکھی تھی وہ تحریر دیکھ لی

ماضی نے جو لکھی تھی وہ تحریر دیکھ لی
دنیا نے اپنے حال کی تصویر دیکھ لی
اب خیر ہی مناؤ، کہ شہرِ پناہ میں
پیاسی کسی کی آنکھ نے شمشیر دیکھ لی
دل نے تو کر لیا تِرے چہرے کا انتخاب
نظروں سے پوچھ لینا کہ تفسیر دیکھ لی
اپنا ہی مل سکا نہ اسے آج تک سراغ
کر کے ہر ایک اس نے بھی تدبیر دیکھ لی
لاکھوں جتن کے بعد بھی حاصل نہ کچھ ہوا
بگڑی ہوئی سی اپنی ہی تقدیر دیکھ لی
کیوں محو ہے طواف میں اپنی ہی ذات کے
دنیا نے تیرے پاؤں کی زنجیر دیکھ لی
دیوار و در کی اب کوئی حاجت نہیں حیاتؔ
گوشہ نشینوں نے بھی تشہیر دیکھ لی

 عادل حیات

No comments:

Post a Comment