Friday 16 September 2016

رات آئی ہے شام سے پہلے

رات آئی ہے شام سے پہلے
دن ڈھلا اختتام سے پہلے
میں نے دیکھے تھے اجنبی سائے
شہر میں قتلِ عام سے پہلے 
بے محبت ہی مار ڈالی گئی
شاہ زادی غلام سے پہلے
ہر طرف قرمزی اداسی ہے
جیسے ہوتی ہے شام سے پہلے
آ کے منزل پہ کب سے بیٹھے ہیں
سُست رَو تیز گام سے پہلے
کتنے عالی مقام آتے ہیں
عاشقِ بے مقام سے پہلے
با ادب، با نصیب ہوتا ہے
سر جھکانا سلام سے پہلے
خاک و افلاک میں بہت گھومے
حالتِ انضمام سے پہلے
جانے بھٹکے گی زندگی کب تک
کائناتی دوام سے پہلے
عمر بھر کی نماز ہے ناصرؔ
ایک سجدہ قیام سے پہلے

نصیر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment