رات آئی ہے شام سے پہلے
دن ڈھلا اختتام سے پہلے
میں نے دیکھے تھے اجنبی سائے
شہر میں قتلِ عام سے پہلے
بے محبت ہی مار ڈالی گئی
ہر طرف قرمزی اداسی ہے
جیسے ہوتی ہے شام سے پہلے
آ کے منزل پہ کب سے بیٹھے ہیں
سُست رَو تیز گام سے پہلے
کتنے عالی مقام آتے ہیں
عاشقِ بے مقام سے پہلے
با ادب، با نصیب ہوتا ہے
سر جھکانا سلام سے پہلے
خاک و افلاک میں بہت گھومے
حالتِ انضمام سے پہلے
جانے بھٹکے گی زندگی کب تک
کائناتی دوام سے پہلے
عمر بھر کی نماز ہے ناصرؔ
ایک سجدہ قیام سے پہلے
نصیر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment