Friday 16 September 2016

درد کے پیلے گلابوں کی تھکن باقی رہی

درد کے پیلے گلابوں کی تھکن باقی رہی
جاگتی آنکھوں میں خوابوں کی تھکن باقی رہی
پانیوں کا جسم سہلاتی رہی پر ہوا مگر
ٹوٹتے بنتے حبابوں کی تھکن باقی رہی
دید کی آسودگی میں کون کیسے دیکھتا
درمیاں کتنے حجابوں کی تھکن باقی رہی
فلسفے سارے کتابوں میں الجھ کر رہ گئے
درسگاہوں میں نصابوں کی تھکن باقی رہی
بارشیں ہوتی رہیں ناصرؔ سمندر کی طرف 
ریگزاروں میں سرابوں کی تھکن باقی رہی

نصیر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment