درد کے پیلے گلابوں کی تھکن باقی رہی
جاگتی آنکھوں میں خوابوں کی تھکن باقی رہی
پانیوں کا جسم سہلاتی رہی پر ہوا مگر
ٹوٹتے بنتے حبابوں کی تھکن باقی رہی
دید کی آسودگی میں کون کیسے دیکھتا
فلسفے سارے کتابوں میں الجھ کر رہ گئے
درسگاہوں میں نصابوں کی تھکن باقی رہی
بارشیں ہوتی رہیں ناصرؔ سمندر کی طرف
ریگزاروں میں سرابوں کی تھکن باقی رہی
نصیر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment