زخم دِکھانے لگ جاتی ہے، جان کو آنے لگ جاتی ہے
رات گئے تنہائی جس دم، شور مچانے لگ جاتی ہے
عشق دماغ کی چکربازی، حسن سراسر دِید کا دھوکا
دل کو یہ سب کہتے کہتے، عمر ٹھکانے لگ جاتی ہے
اس شرمیلی سی لڑکی سے جب بھی دل کی حالت پوچھی
رات کو محرم راز سمجھ کر، رات سے راز کی بات کہو تو
رات کہاں چپ رہ پاتی ہے،۔۔ بات بڑھانے لگ جاتی ہے
اندر کے حالات کو،۔۔ باہر کی دنیا سے لاکھ چھپائیں
وحشت گھر کی بھیدی بن کر لنکا ڈھانے لگ جاتی ہے
افتخار حیدر
No comments:
Post a Comment