Friday 16 September 2016

رونے کو بہت روئے بہت آہ و فغاں کی

رونے کو بہت روۓ، بہت آہ و فغاں کی
کٹتی نہیں زنجیر مگر سُود و زیاں کی
کرتے ہیں طواف آج وہ خود اپنے گھروں کا
جو سیر کو نکلے تھے کبھی سارے جہاں کی
آئیں جو یہاں اہلِ خِرد، سوچ کے آئیں
اس شہر سے ملتی ہیں حدیں شہرِ گماں کی
اس دشت کے انجام پہ پہلے سے نظر تھی
تاثیر سمجھتے تھے ہم آوازِ سگاں کی
الزام لگاتا ہے یہی ہم پہ زمانہ
تصویر بناتے ہیں کسی اور جہاں کی
پہلے ہی کہا کرتے تھے مت غور سے دیکھو
ہر بات نرالی ہے یہاں دیدہ وراں کی
آشفتہؔ اب اس شخص سے کیا خاک نِباہیں
جو بات سمجھتا ہی نہیں دل کی زباں کی

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment