اشک پلکوں سے گِرا دینا ضروری ہو گیا ہے
جب تِری یادیں بھُلا دینا ضروری ہو گیا ہے
میرا بیٹا آ گیا ہے اب مِرے کاندھے تلک
اب تمہارے خط جلا دینا ضروری ہو گیا ہے
اس دلِ سادہ نے جب پوچھا کسے کہتے ہیں وصل
عمر کے ڈھلنے سے کیا نِسبت ہے میرے پیار کو
کیوں تِری خواہش مِٹا دینا ضروری ہو گیا ہے
داستانِ دل، اشاعت کے لیے دے دی گئی
جب زمانے کو سُنا دینا ضروری ہو گیا ہے
جب بھری محفل میں بھی کاشفؔ ہمیں وحشت ملی
جانے والوں کو صدا دینا ضروری ہو گیا ہے
کاشف کمال
No comments:
Post a Comment