جو چیز تھی کمرے میں وہ بے ربط پڑی تھی
تنہائیِ شب، بندِ قبا کھول رہی تھی
آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی
کھڑی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی
بالوں نے تیرا لمس تو محسوس کیا تھا
ہاتھوں میں نیا چاند پڑا ہانپ رہا تھا
رانوں پہ برہنہ سی نمی رینگ رہی تھی
یادوں نے اسے توڑ دیا مار کے پتھر
آئینے کی خندق میں جو پرچھائیں پڑی تھی
دنیا کی گزرتے ہوئے پڑتی تھیں نگاہیں
شیشے کی جگہ کھڑکی میں رُسوائی جڑی تھی
ٹوٹی ہوئی مُحراب سے گنبد کے کھنڈر تک
اک بوڑھے مؤذن کی صدا گونج رہی تھی
عادل منصوری
No comments:
Post a Comment