ہم ذرے ہیں خاکِ رہگزر کے
دیکھو ہمیں بام سے اتر کے
چپ ہو گئے یوں اسیر جیسے
جھگڑے تھے تمام بال و پر کے
اے بادِ سحر! نہ چھیڑ ہم کو
شبنم کی طرح حیات کے خواب
کچھ اور نکھر گئے بکھر کے
جب ان کو خیالِ وضع آیا
انداز بدل گئے نظر کے
طوفاں کو بھی ہے ملال ان کا
ڈوبی ہیں جو کشتیاں ابھر کے
حالات بتا رہے ہیں باقیؔ
ممنون نہ ہونگے چارہ گر کے
باقی صدیقی
No comments:
Post a Comment