Monday 12 September 2016

ہم ذرے ہیں خاک رہگزر کے

ہم ذرے ہیں خاکِ رہگزر کے
دیکھو ہمیں بام سے اتر کے
چپ ہو گئے یوں اسیر جیسے
جھگڑے تھے تمام بال و پر کے
اے بادِ سحر! نہ چھیڑ ہم کو
ہم جاگے ہوئے ہیں رات بھر کے
شبنم کی طرح حیات کے خواب
کچھ اور نکھر گئے بکھر کے
جب ان کو خیالِ وضع آیا
انداز بدل گئے نظر کے
طوفاں کو بھی ہے ملال ان کا
ڈوبی ہیں جو کشتیاں ابھر کے
حالات بتا رہے ہیں باقیؔ
ممنون نہ ہونگے چارہ گر کے

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment