کیا بتاؤں کہ مدعا کیا ہے
دل تِرے درد کے سوا کیا ہے
دور تاروں کی انجمن جیسے
زندگی دیکھنے میں کیا کیا ہے
ہر قدم پر نیا تماشا ہو
کوئی لائے پیامِ فصلِ بہار
ہم نہیں جانتے صبا کیا ہے
درد کی اِنتہا نہیں کوئی
ورنہ عمرِ گریز پا کیا ہے
آپ بیٹھے ہیں درمیاں، ورنہ
مرگ و ہستی میں فاصلہ کیا ہے
نہ رہا جب خلوص ہی باقیؔ
پھر روا کیا ہے، ناروا کیا ہے
باقی صدیقی
No comments:
Post a Comment