جو سانس لیتا ہوں، دل میں چبھن سی ہوتی ہے
کہ شہرِ زیست میں ہر پل گھٹن سی ہوتی ہے
جو اپنی آنکھ سے سورج کو چھو نہیں سکتا
تِرے عروج پہ اس کو جلن سی ہوتی ہے
سفر نگاہ میں روشن تو خوب ہوتا ہے
ہتھیلیوں پہ اگاتا ہے خواہشیں وہ بھی
مجھے بھی پانے کی اس کو لگن سی ہوتی ہے
تمام رات اسے دیکھتا ہوں خوابوں میں
تمام دن مِرے دل میں جتن سی ہوتی ہے
کبھی جو ہوتا ہے ماضی کے روبرو عادلؔ
سنا ہے چہرے پہ اس کے شکن سی ہوتی ہے
عادل حیات
No comments:
Post a Comment