پار کرنا ہے ندی کو تو اتر پانی میں
بنتی جائے گی خود ایک راہگزر پانی میں
ذوقِ تعمیر تھا ہم خانہ خرابوں کا عجب
چاہتے تھے کہ بنے ریت کا گھر پانی میں
سیلِ غم آنکھوں سے سب کچھ نہ بہا لے جائے
کشتیاں ڈوبنے والوں کے تجسس میں نہ جائیں
رہ گیا کون، خدا جانے کدھر پانی میں
اب جہاں پاؤں پڑے گا یہی دلدل ہو گی
جستجو خشک زمینوں کی نہ کر پانی میں
موج در موج، یہی شور ہے طغیانی کا
ساحلوں کی کسے ملتی ہے خبر پانی میں
خود بھی بکھرا وہ، بکھرتی ہوئی ہر لہر کے ساتھ
عکس اپنا اسے آتا تھا نظر پانی میں
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment