کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
گھر کہیں گم ہو گیا دیوار و در کے درمیاں
کون اب اس شہر میں کس کی خبر گِیری کرے
ہر کوئی گم اک ہجومِ بے خبر کے درمیاں
جگمگائے گا مِری پہچان بن کر مدتوں
ایک ساعت تھی کہ صدیوں تک سفر کرتی رہی
کچھ زمانے تھے کہ گزرے لمحے بھر کے درمیاں
وار وہ کرتے رہیں گے، زخم ہم کھاتے رہیں
ہے یہی رشتہ پرانا سنگ و سر کے درمیاں
کیا کہیں ہر دیکھنے والے کو آخر چپ لگی
گم تھا منظر اختلافاتِ نظر کے درمیاں
کس کی آہٹ پر اندھیروں کے قدم بڑھتے گئے
رونما تھا کون اس اندھے سفر کے درمیاں
کچھ اندھیرا سا، اجالوں سے گلے ملتا ہوا
ہم نے اک منظر بنایا خیر و شر کے درمیاں
بستیاں مخمورؔ یوں اجڑیں کہ صحرا ہو گئیں
فاصلے بڑھنے لگے جب گھر سے گھر کے درمیاں
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment