Monday 12 September 2016

دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ چلتے ہیں

دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ چلتے ہیں
سفر گمان کا ہے، اور یقیں پہ چلتے ہیں
ہمارے قافلہ سالاروں کے ارادے کیا
چلے تو ہاں پہ ہیں لیکن نہیں پہ چلتے ہیں
نہ جانے کون سا نشہ ہے ان پہ چھایا ہوا
قدم کہیں پہ ہیں پڑتے، کہیں پہ چلتے ہیں
بنا کے ان کو اگر چھوڑ دو تو گِر جائیں
مکاں نئے کہ پرانے مکیں پہ چلتے ہیں
جہاں تمہارا ہے، تم کو کسی کا ڈر کیا ہے
تمام تیر کہاں کے، ہمیں پہ چلتے ہیں

بیکل اتساہی

No comments:

Post a Comment