دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ چلتے ہیں
سفر گمان کا ہے، اور یقیں پہ چلتے ہیں
ہمارے قافلہ سالاروں کے ارادے کیا
چلے تو ہاں پہ ہیں لیکن نہیں پہ چلتے ہیں
نہ جانے کون سا نشہ ہے ان پہ چھایا ہوا
بنا کے ان کو اگر چھوڑ دو تو گِر جائیں
مکاں نئے کہ پرانے مکیں پہ چلتے ہیں
جہاں تمہارا ہے، تم کو کسی کا ڈر کیا ہے
تمام تیر کہاں کے، ہمیں پہ چلتے ہیں
بیکل اتساہی
No comments:
Post a Comment