Monday, 12 September 2016

عمر فانی ہے آنی جانی ہے

عمر فانی ہے، آنی جانی ہے
کچھ کرے گر تو جاودانی ہے
غیض میں اور، التفات میں اور
وہ کہ ہے آگ، وہ کہ پانی ہے
بس میں مشکل سے آئے مچھلی سا
خُو یہ اس شوخ کی پرانی ہے
جیسے آب رواں پہ گُل تَیریں
چال میں اس کی وہ روانی ہے
ظرف جس نے کشادہ تر رکھا
ہاں وہ انسانیت کا بانی ہے
نسل اس کی فزوں ہوئی کیسے
یہ بھی آدمؑ کی اک کہانی ہے
ہاں کبھی جانبِ نشیب نہ جا
تُو نے ماجدؔ کہاں کی ٹھانی ہے

ماجد صدیقی

No comments:

Post a Comment