عمر فانی ہے، آنی جانی ہے
کچھ کرے گر تو جاودانی ہے
غیض میں اور، التفات میں اور
وہ کہ ہے آگ، وہ کہ پانی ہے
بس میں مشکل سے آئے مچھلی سا
جیسے آب رواں پہ گُل تَیریں
چال میں اس کی وہ روانی ہے
ظرف جس نے کشادہ تر رکھا
ہاں وہ انسانیت کا بانی ہے
نسل اس کی فزوں ہوئی کیسے
یہ بھی آدمؑ کی اک کہانی ہے
ہاں کبھی جانبِ نشیب نہ جا
تُو نے ماجدؔ کہاں کی ٹھانی ہے
ماجد صدیقی
No comments:
Post a Comment