تمہارا وعدہ خدائی قرار تھوڑی ہے
چمکتی شے کا کوئی اعتبار تھوڑی ہے
رئیس شہر! تِرا انتظار تھوڑی ہے
تِرے کرم پہ مِرا انحصار تھوڑی ہے
جنوں میں حد سے ہم اہلِ جنوں گزر جائیں
وہ ہم سے پیش نہ آئے گا بادشاہوں سا
وزیر ہے، وہ کوئی شہریار تھوڑی ہے
ہم اس کے آگے کبھی سر جھکا نہیں سکتے
امیر شہر ہے، پروردگار تھوڑی ہے
امیرِ وقت کے درباریوں میں رہنا کیا
یہ بات باعثِ صد افتخار تھوڑی ہے
محل نشینو! تکلّف کرو نہ آنے میں
مِرا ٹھکانہ سرِ رہگزار تھوڑی ہے
کہاں سے لاؤں میں قالین اب تمہارے لیے
درِ فقیر ہے، شاہی دیار تھوڑی ہے
خیال سود کا رکھتے ہو تو پلٹ جاؤ
یہ شاعری ہے، کوئی کاروبار تھوڑی ہے
فراغؔ اشاروں میں ہی گفتگو کرے گا کہ وہ
سخن طراز ہے، نامہ نگار تھوڑی ہے
فراغ روہوی
No comments:
Post a Comment