Friday 27 November 2015

حقیقتوں سے جو نکلے تو خواب تک پہنچے

حقیقتوں سے جو نکلے تو خواب تک پہنچے
کہ جیسے کوئی سمندر سراب تک پہنچے
کہیں سے مِل نہ سکا مجھ کو اِذنِ گویائی
مِرے سوال ہی آخر جواب تک پہنچے
جو پارسا تھے رہے زعمِ پارسائی میں
گناہ گار ہی کارِ ثواب تک پہنچے
نہ ہو گی دور کہیں سے دلوں کی تاریکی
اسے کہو کہ وہ روشن کتاب تک پہنچے
بھٹک رہے تھے جو منزل کی جستجو میں شمیمؔ
وہ قافلے دلِ خانہ خراب تک پہنچے

شمیم فاروقی

No comments:

Post a Comment