Friday 27 November 2015

کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا

کر لیتے الگ ہم تو دل اس شوخ سے کب کا
گر اور بھی ہوتا کوئی اس طور کی چھب کا
بوسہ کی عوض ہوتے ہیں دشنام سے مسرور
اتنا تو کرم ہم پہ بھی ہے یار کے لب کا
اس کان کے جھمکے کی لٹک دیکھ لی شاید
ہر خوشہ اسی تاک میں رہتا ہے عنب کا
ق
دیکھا جو بڑی دیر تلک اس نے منہ اپنا
لے دستِ حنا بستہ میں آئینہ حلب کا
جب ہم نے کہا رکھیے اب آئینہ کو یہ تو
حصہ ہے کسی اور بھی دیدارِ طلب کا
یہ سن کے ادھر اس نے کِیا غصے میں منہ سرخ
بھبکا ادھر آئینہ بھی ہمسر ہو غضب کا
تم ربط کے ڈھب جس سے لڑاتے ہو نظیرؔ آہ
وہ دلبرِ عیار ہے کچھ اور ہی ڈھب کا

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment