اک غمِ عشق ہی کب ہے، ہمیں غم اور بھی ہیں
صرف معشوق نہیں، اہلِ ستم اور بھی ہیں
تُو نہ ہوتا تو کہاں آتا یہ اندازِ سخن
بے وفائی ہی نہیں، تیرے کرم اور بھی ہیں
تیرے لوٹ آنے کی رکھیں گے نہ کوئی امید
پالنے ہوں گے بھرم ہی تو بھرم اور بھی ہیں
آ گئے پاس، نہ رک، اور بڑھا دے رفتار
راہِ منزل میں ابھی چند قدم اور بھی ہیں
ہم اگر مٹ بھی گئے، حق نہیں مٹنے والا
جن کو اٹھنا ہے ابھی، حق کے علم اور بھی ہیں
ہم نے ٹھکرا کے صنم سارے، چُنا ایک خدا
وہ ہمیں آ کے بتاتے ہیں صنم اور بھی ہیں
جن کی تحریروں میں ہوتی ہے کوئی کام کی بات
صرف جاویدؔ نہیں، اہلِ قلم اور بھی ہیں
جاوید جمیل
صرف معشوق نہیں، اہلِ ستم اور بھی ہیں
تُو نہ ہوتا تو کہاں آتا یہ اندازِ سخن
بے وفائی ہی نہیں، تیرے کرم اور بھی ہیں
تیرے لوٹ آنے کی رکھیں گے نہ کوئی امید
پالنے ہوں گے بھرم ہی تو بھرم اور بھی ہیں
آ گئے پاس، نہ رک، اور بڑھا دے رفتار
راہِ منزل میں ابھی چند قدم اور بھی ہیں
ہم اگر مٹ بھی گئے، حق نہیں مٹنے والا
جن کو اٹھنا ہے ابھی، حق کے علم اور بھی ہیں
ہم نے ٹھکرا کے صنم سارے، چُنا ایک خدا
وہ ہمیں آ کے بتاتے ہیں صنم اور بھی ہیں
جن کی تحریروں میں ہوتی ہے کوئی کام کی بات
صرف جاویدؔ نہیں، اہلِ قلم اور بھی ہیں
جاوید جمیل
No comments:
Post a Comment