Sunday 29 November 2015

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے
دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانے ہے
ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائیں، لیکن
لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانے ہے
زخم اس تیغ نگہ کا مِرے دل نے ہنس ہنس
اس مزیداری سے کھایا ہے کہ جی جانے ہے
اس کی دزدیدہ نگہ نے مِرے دل میں چھپ کر
 تیر اس ڈھب سے لگایا ہے کہ جی جانے ہے
بام پر چڑھ کے تماشے کو ہمیں حسن اپنا
اس تماشے سے دکھایا ہے کہ جی جانے ہے
اس کی فرقت میں ہمیں چرخِ ستمگار نے آہ
یہ رلایا، یہ رلایا ہے کہ جی جانے ہے
رنج ملنے کے بہت دل نے سہے لیک نظیرؔ
یار بھی ایسا ہی پایا ہے کہ جی جانے ہے

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment