عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانے ہے
دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانے ہے
ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائیں، لیکن
لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانے ہے
زخم اس تیغ نگہ کا مِرے دل نے ہنس ہنس
اس کی دزدیدہ نگہ نے مِرے دل میں چھپ کر
تیر اس ڈھب سے لگایا ہے کہ جی جانے ہے
بام پر چڑھ کے تماشے کو ہمیں حسن اپنا
اس تماشے سے دکھایا ہے کہ جی جانے ہے
اس کی فرقت میں ہمیں چرخِ ستمگار نے آہ
یہ رلایا، یہ رلایا ہے کہ جی جانے ہے
رنج ملنے کے بہت دل نے سہے لیک نظیرؔ
یار بھی ایسا ہی پایا ہے کہ جی جانے ہے
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment