دیارِ شب کا مقدر ضرور چمکے گا
یہیں کہیں سے چراغوں کا نور چمکے گا
کہاں ہوں میں کوئی موسیٰؑ کہ اک صدا پہ مِری
وہ نور پھر سے سرِ کوہِ طور چمکے گا
تِرے جمال کا نشہ شراب جیسا ہے
بھرم جو پیاس کا رکھے گا آخری دم تک
اُسی کے ہاتھ میں جامِ طہور چمکے گا
یہ کہہ کے دار پہ خود کو چڑھا دیا میں نے
کہ دار پر بھی سرِ بے قصور چمکے گا
لٹے ہوئے ہیں مگر ہم ابھی نہیں مایوس
ہمارے تاج میں پھر کوہِ نور چمکے گا
تلاش کرتا ہے مجھ مشتِ خاک میں تٗو عبث
غرور ہو گا جبھی تو غرور چمکے گا
مِرے ہنر کا گماں ہو گا عیب پر میرے
مِری غزل میں جو فن کا شعور چمکے گا
متاعِ فن سے نوازا گیا ہے تجھ کو فراغؔ
اسی سے نام تِرا دور دور چمکے گا
فراغ روہوی
No comments:
Post a Comment