Friday 27 November 2015

جو غرق کر دے اسے ناخدا کہیں کیسے

جو غرق کر دے اسے ناخدا کہیں کیسے
تمہیں کہو، تمہیں جانِ وفا کہیں کیسے
تمہارا حسن حقیقت ہے، چاند کا ہے سراب
تمہارے چہرے کو پھر چاند سا کہیں کیسے
حیا کا ان کی کوئی جُز ہمارا ہو بیٹھا
ہے ایک بات مگر برملا کہیں کیسے
انا تمہاری بھی نکلی ہے اوروں جیسی ہی
تمہارے خلق کو سب سے جدا کہیں کیسے
تِرے وجود سے کب ہے جدا ہمارا وجود
تِری خطا کو بھی تیری خطا کہیں کیسے
ہمیں وحی یہ ہوئی عدل پر رہیں قائم
جو حق نہیں ہے اسے حق بھلا کہیں کیسے
وہ خامشی سے مزاجوں میں زہر بھرتی ہے
ہوائے نو ہے بلا تو صبا کہیں کیسے
ہمیں پتہ ہے کہ تم اہل ہو مگر جاویدؔ
کسی کو اپنے سوا رہنما کہیں کیسے

جاوید جمیل

No comments:

Post a Comment