محوِ کمالِ آرزو مجھ کو بنا کے بُھول جا
اپنے حریمِ ناز کا پردہ اُٹھا کے بھول جا
جلوہ ہے بے خودی طلب عشق ہے ہمت آزما
دیدۂ مست یار سے آنکھ مِلا کے بھول جا
لطفِ جفا اسی میں ہے یادِ جفا نہ آئے پھر
تجھ کو ستم کا واسطہ مجھ کو مِٹا کے بھول جا
لوث طلب کے ننگ سے عشق کو بے نیاز رکھ
ہو بھی جو کوئی آرزو دل سے مٹا کے بھول جا
ہادی مچھلی شہری
No comments:
Post a Comment