تجھ میں پڑا ہوا ہوں میں، پھر بھی جدا سمجھ مجھے
میں نے تجھے سمجھ لیا، تُو بھی ذرا سمجھ مجھے
سبزہ اگا کہ خاک اڑا، قبضے میں رکھ کہ چھوڑ جا
بھول سے بھر کہ دھیان سے، خالی جگہ سمجھ مجھے
ہاتھ میں کل جو ہاتھ تھا، نبض پہ آ گیا ہے آج
جتنا اٹھا سکے یہ بوجھ، اتنا اٹھا مِرے عزیز
جِتنا سمجھ میں آ سکے، اتنا بڑا سمجھ مجھے
خود کو سمجھ، خدا سے مل، ہے جو یہاں پہ مستقل
میری تلاش میں نہ پھِر، خلقِ خدا سمجھ مجھے
کالے لباس کا مجھے ایسا بھی تجربہ نہیں
ہنستا بھی ہوں اگر کبھی، روتا ہوا سمجھ مجھے
دینے کو کچھ نہیں یہاں، میں بھی "نہیں" کی شکل ہوں
آ ہی گیا ہے تو اگر، خالی نہ جا، سمجھ مجھے
اتنا بتا کہ شہر میں، کِتنے سمجھ سکے تجھے
کتنوں کو تُو سمجھ سکا،اب تو ذرا سمجھ مجھے
ذوالفقار عادل
No comments:
Post a Comment