Wednesday 25 November 2015

موجہ گل کو ہم آواز نہیں کر سکتے

موجۂ گل کو ہم آواز نہیں کر سکتے
دن تِرے نام سے آغاز نہیں کرسکتے
اس چمن زار میں ہم سبزۂ بیگانہ سہی
آپ ہم کو نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق کرنا ہے تو پھر سارا اثاثہ لائیں
اس میں تو کچھ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
دکھ پہنچتا ہے بہت دل کو رویے سے تِرے
اور مداوا تِرے الفاظ نہیں کر سکتے
عشق میں یہ بھی کھلُا ہے کہ اٹھانا غم کا
کارِ دشوار ہے اور بعض نہیں کر سکتے

پروین شاکر​

No comments:

Post a Comment