اس کے کل کوچے میں ایسے ہنر سے گزرے
ایک نے دیکھا نہیں، سب کی نظر سے گزرے
کیا عجب تیرِ نگاہ میرے جگر سے گزرے
پر وہ ہے تیر کہ آہن کی سپر سے گزرے
اس سر میں تو بہت آئے مسافر لیکن
جوشِ گریہ سے مِرے ہووے جو طوفاں برپا
آب ہو پیرِ فلک کے ابھی سر سے گزرے
چشمِ نقشِ کفِ پارا میں حیراں ہو کیوں
راہ روکتے ہی اس راہ گزر سے گزرے
دید بازی کے تماشے کا نہ عالم پوچھو
کہ تماشے بھی بہت چشمِ ظفرؔ سے گزرے
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment