Friday 27 November 2015

اس کے کل کوچے میں ایسے ہنر سے گزرے

اس کے کل کوچے میں ایسے ہنر سے گزرے
ایک نے دیکھا نہیں، سب کی نظر سے گزرے
کیا عجب تیرِ نگاہ میرے جگر سے گزرے
پر وہ ہے تیر کہ آہن کی سپر سے گزرے
اس سر میں تو بہت آئے مسافر لیکن
جو ہے کیا جانے کہاں سے وہ کدھر سے گزرے
جوشِ گریہ سے مِرے ہووے جو طوفاں برپا
آب ہو پیرِ فلک کے ابھی سر سے گزرے
چشمِ نقشِ کفِ پارا میں حیراں ہو کیوں
راہ روکتے ہی اس راہ گزر سے گزرے
دید بازی کے تماشے کا نہ عالم پوچھو
کہ تماشے بھی بہت چشمِ ظفرؔ سے گزرے

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment