Saturday 28 November 2015

کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب

کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب 
یعنی وہ شوخ ہم سے خفا بے سبب ہے اب 
آہ و فغاں و گریہ و اندوہ و درد و داغ
یہ جنسِ عشق ہے وہ مِرے پاس سب ہے اب
دیکھے سے جس کے غنچہ صفت گل ہو رشک ہے
ایسا تو اس جنم میں وہی غنچہ لب ہے اب
صبحِ فلک بھی جس کی تجلی سے ہو خجل
اس رشک ماہتاب سے اپنی وہ شب ہے اب 
آئینہ ایک دم نہیں رکھتا ہے ہاتھ سے
ایسا وہ اپنے رخ کا تماشا طلب ہے اب
اس گل بدن کے وصل سے ہر دم نظیرؔ کو 
سب سے زیادہ خلق میں عیش و طرب ہے اب

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment