Sunday 29 November 2015

وہ سو کر اٹھ رہے ہیں اللہ اللہ کیا نظارا ہے

وہ سو کر اٹھ رہے ہیں اللہ اللہ کیا نظارا ہے
قیامت نے ابھی کروٹ بدل کر سر ابھارا ہے
جوانی نے اسے اس خوش مذاقی سے سنوارا ہے
نہ عرض شوق کی جرأت، نہ ضبطِ غم کا یارا ہے
سحر ہوتے ہی وہ اس طرح شرما کر سدھارا ہے
کہ مجھ کو عمر بھر اب رنجِ محرومی گوارا ہے
کہاں صحرا نوردی اور کہاں دیدار کی حسرت
میری دیوانگی تیرے تغافل کا ارشارا ہے
معطر سانس، چہرہ رشکِ گل، مستی بھری آنکھیں
جوانی ہے کہ اک سیلاب رنگ و بو کا دھارا ہے
تمہاری یاد ہے میری کتابِ غم کا دیباچہ
خدا رکھے یہی ٹوٹے ہوئے دل کا سہارا ہے
ستم کو کیا ستم سمجھوں جفا کو کیا جفا جانوں
وہی جور آشنا جب زندگانی کا سہارا ہے
ہوا مغموم، منظر مضمحل ، ماحول افسردہ
مجھے اے نا خدا کس گھاٹ تُو نے لا اتارا ہے
وفا کی آرزو لغزش ہے اک خوش اعتقادی کی
مجھے احسانؔ اکثر دوستوں نے مل کے مارا ہے

احسان دانش

No comments:

Post a Comment