وہ سو کر اٹھ رہے ہیں اللہ اللہ کیا نظارا ہے
قیامت نے ابھی کروٹ بدل کر سر ابھارا ہے
جوانی نے اسے اس خوش مذاقی سے سنوارا ہے
نہ عرض شوق کی جرأت، نہ ضبطِ غم کا یارا ہے
سحر ہوتے ہی وہ اس طرح شرما کر سدھارا ہے
کہاں صحرا نوردی اور کہاں دیدار کی حسرت
میری دیوانگی تیرے تغافل کا ارشارا ہے
معطر سانس، چہرہ رشکِ گل، مستی بھری آنکھیں
جوانی ہے کہ اک سیلاب رنگ و بو کا دھارا ہے
تمہاری یاد ہے میری کتابِ غم کا دیباچہ
خدا رکھے یہی ٹوٹے ہوئے دل کا سہارا ہے
ستم کو کیا ستم سمجھوں جفا کو کیا جفا جانوں
وہی جور آشنا جب زندگانی کا سہارا ہے
ہوا مغموم، منظر مضمحل ، ماحول افسردہ
مجھے اے نا خدا کس گھاٹ تُو نے لا اتارا ہے
وفا کی آرزو لغزش ہے اک خوش اعتقادی کی
مجھے احسانؔ اکثر دوستوں نے مل کے مارا ہے
احسان دانش
No comments:
Post a Comment