Tuesday, 24 November 2015

کیا غصہ میں آتا ہے جو کرتا ہوں گلہ میں

کیا غصہ میں آتا ہے جو کرتا ہوں گِلا میں
خود آپ انہیں چھیڑ کے لیتا ہوں مزا میں
فتنہ نے کہا دور ہی سے دیکھ کے ان کو
یہ آ کے اگر ناز سے بیٹھا، تو اٹھا میں
کیا پھول کے غنچہ ہے سرِ شاخ پہ خنداں
سمجھا ہے اسی طرح گزاروں گا سدا میں
کیا تم کو بھی الفت ہے یہ کہہ دیجئے سچ سچ
اس وقت نہیں دوسرا، بس آپ ہیں یا میں
پاس ان کے یہ بالیدہ میں ہوتا ہوں خوشی سے
آ بیٹھنے کی اور کے رکھتا نہیں جا میں
ہم نے تو کسی رنگ میں نسبت کو نہ چھوڑا
وہ مجھ سے خفا رہتے ہیں، جینے سے خفا میں
کیا قہر ہے اس چشم فسوں ساز کا انداز
اس رنگ سے دیکھا کہ نہ آپے میں رہا میں
خود رفتہ ہوا آتے ہوئے دیکھ کے ان کو
وہ آن کے ٹِکنے بھی نہ پائے کہ چلا میں
کیا ضد ہے مرے ساتھ کہ غنچہ ہی گرایا
کھِلنے بھی نہ پایا تھا ابھی بادِ صبا میں
ملتا ہے بھلا طائرِ خوش زمزمہ ہم سا
صیاد کی قسمت تھی بھلی آن پھنسا میں
یہ دیکھئے شوخی، جو کروں عرض تمنا
کس ناز سے کہتے ہیں کہ ہوں تم سے خفا میں
تُو اس سے ڈراتا ہے کہ جو خیر محض ہے
واعظ! تِرے فِقروں میں کب آتا ہوں بھلا میں
کیا خاک ہو تمیز انہیں مہر و ستم میں
ان کی تو ہر اک بات پہ کہتا ہوں بجا میں
ہوں شمع سرِ راہ، نہیں میرا بھروسا
جھوکا بھی ہوا کا اگر آیا تو بجھا میں
محفل میں بنا ہوں میں تِرے عہد کی بنیاد
تُو نے بھی مجھے گو کہ اٹھایا نہ اٹھا میں
کچھ وعدۂ وصل اس کا لگاتا تھا سہارا
گو اصل میں تھا جھوٹ پہ جیتا تو رہا میں
اب جسم ہے سب راکھ دھرا اس میں ہے کیا خاک
اخگر کی طرح اپنی ہی سوزش میں جلا میں
جب دیکھو گلے میں ہیں عدو کے تِری باہیں
رنجیدہ تِرے ہاتھ سے رہتا ہوں سدا میں
کچھ پڑ تو گئی غیر کے گھر جانے میں کھنڈت
گھر سے وہ نکلتے ہی تھے باہر کہ مِلا میں
مجروحؔ مِرے مصرعۂ سوداؔ سے گئے ہوش
"ساغر کو مِرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں"

میر مہدی مجروح

No comments:

Post a Comment